ہائے رےمیرے قلم! لکھوں تو کیا لکھوں؟

کبھی کبھی قلم Ú©Ùˆ بھی اپنی بے بسی کا گمان ہوتا ہے۔ قلم Ú©Ú†Ú¾ اگلنے Ú©Ùˆ بے تاب تو ہوتی ہے لیکن الفاظ صفØ+ات پر رقم ہونے سے انکاری ہوتے ہیں۔
Ú©Ú†Ú¾ اسی قسم Ú©ÛŒ صورتØ+ال میرے قلم Ú©Û’ ساتھ بھی پیش آرہی ہے۔ Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ Ú©Ùˆ تو ان گنت موضوعات ہیں لیکن میرے قلم Ú©Û’ تو نخرے ہی اٹھائے
نہیں اٹھ رہے۔
لکھوں تو کیا لکھوں؟
معاشرے Ú©Û’ بگڑتے Ø+الات لکھوں؟
رومانوی واقعات لکھوں؟
ظلم و جبر کی داستانیں لکھوں؟
کسی مصنف کا اندازِ بیاں لکھوں؟
یا کوئی افسردہ سا شاعرانہ کلام لکھوں؟
سوچوں Ú©ÛŒ اک نہ ختم ہونے والی Ù„Ú‘ÛŒ ہے جو قلم Ú©Û’ ایک اشارے پر امڈ آنے Ú©Ùˆ بے قرارہے۔ بظاہر تو قلم صاØ+ب ایک عام سی Ø´Û’ ہیں لیکن
سب Ú©Ú†Ú¾ اس کہ نوک پر منØ+صر ہے۔الفاظ Ú©ÛŒ چاہے بہتات ہی کیوں نہ ہو ا گر قلم چاہے تو ان میں کشش پیدا کر سکتا ہے۔ ورنہ الفاظ تخیل میں
رہیں تو اچھا ہے۔ اور خیالات میں بسے لفظ کبھی خوشبو نہیں دے سکتے۔ لہذا اگر آپ کے لکھنے میں قلم کی رضامندی بھی شامل ہو جائے تو
آپکی تØ+ریر Ú©Û’ وارے نیارے ہو جاتے ہیں۔لیکن اصل مسئلہ تو یہی ہے کہ جناب قلم Ú©Û’ مزاج نہیں ملتے۔
یقینا میری اس بات سے بہت سے قلمکاروں Ú©Ùˆ اختلاف ہو لیکن یہاں میں یہ بات عرض کرنا ضروری سمجھتی ہوں کہ تØ+ریر کا موضؤع ہی اگرچہ
میرا قلم ہے اس لئےمیں اپنے قلم کی کاہلی اور سستی کو موضوعِ گفتگو بنا رہی ہوں۔ اگر میرے کسی بہن یا بھائی کو برا لگے تو برا مت منائیں کیونکہ
ہوسکتا ہے آپ Ú©Û’ پاس ہونہار اور Ù…Ø+نتی قلم ہوں لیکن میں اپنے قلم Ú©ÛŒ تعریف میں مبالغہ آرائی نہیں کر سکتی جبکہ وہ ہے ہی سدا کا سست!

معزز قارئین ِ کرام سوچ رہے ہوں گے کہ میں اکیسویں صدی کی لڑکی کیوں انیسویں صدی کے لغت چھان رہی ہوں۔ ؟ اکیسویں صدی کے
پین کو انیسویں صدی کے قلم کا نام کیوں دے رہی ہوں۔۔؟
کہیں میرے پاس اس زمانے کا قلم تو موجود نہیں۔۔؟
اگر آپ سب کے ذہنوں میں یہ سوالات ہیں تو میرا قلم بھی اپنی مسکراہٹ پر قابو نہیں رکھ پا رہا ۔۔ہاہاہا
لہذا ان تمام سوالات کا جواب خود قلم سے ہی دریافت کر لیں۔۔میرے قلم کی زبانی:
ÙŒÙŒÙ‘Ù‘Ù‘Ù‘Ù‘Ù’Ù’Ù’Ù—Ù—Ø ŒØŒ میرا لکھا ہوا Ù¾Ú‘Ú¾Ù†Û’ والو انسانوں! دراصل قصور میرا نہیں، میرے نام کا ہے۔ میں تو اپنی رائٹر صاØ+بہ کا اکیسویں صدی کا ماڈرن پین ہوں
جو دو صفØ+ات سیاہ کرتے ہی دم تو Ú‘ جاتا ہے، اور پھر میرا دوسرا ساتھی Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ Ú©Û’ بقیہ فرائض پورے کرتا ہے۔۔دوسرے Ú©Û’ بعد تیسرا Û”Û”Û”Û”
اور پھر یہ سلسلہ جاری رہتا ہے۔ لیکن Ø+د ہے کہ Ù„Ú©Ú¾Ù†Û’ والی Ú©Û’ ہاتھ ساتھ نہیں چھوڑتے۔ اس سارے معاملے میں میرا کوئی قصور نہیں، قصور ہے
تو ان Ù…Ø+ترمہ کا جو ہمیں پین Ú©Û’ بجائے قلم بلاتی ہیں۔ بلاشبہ ہیں تو یہ بھی اکیسویں صدی Ú©ÛŒ لیکن ان میں سو دو سو سال پرانی کسی سیرت نامی خاتون Ú©ÛŒ
کوئی روØ+ سمائی ہے۔
Ø+یرت Ú©ÛŒ بات دیکھیں کہ انہیں یہ راز بھی پتا Ú†Ù„ چکا ہے کہ اگر اکیسویں صدی Ú©ÛŒ سست عوام Ú©ÛŒ طرØ+ ہمیں بھی ماڈرن ناموں سے مخاطب کیا جائے
گا تو ظاہر ہے سستی Ú©Û’ اثار تو پھیلیں Ú¯Û’ ہی نا۔ اس لئے Ù… سے کام نکلوانے Ú©Û’ لئے Ù…Ø+ترمہ ہمیں "قلم" Ú©Û’ نام سے پکارتی ہیں اور اس نام سے پکارنا
ایسا Û’ کہ ہمارے آباؤ اجداد Ú©ÛŒ روØ+یں تک قبر سے آن باہر ہوتی ہیں اور ہمیں شرم دلاتی ہیں کہ ہمارے نام Ú©ÛŒ لاج رکھو۔
بس پھر! ہماری سستی خود بخود ہوا ہو جاتی ہے کیونکہ ہماری عزت کا معاملہ ہے!"

لیں جی میرے قلم کی داستانِ غم بھی سن لی آپ نے۔ امید ے اب کوئی شکوہ نہیں رہا ہوگا۔ اب گلے شکوے ختم کریں اور یہ بتائیے کہ قلم سے لکھواؤں
تو کیا لکھواؤِں؟ کیونکہ بات جہاں سے شروع ہوئی تھی وہیں کھڑی رہ گئی۔۔
ہائے رے میرے قلم ! لکھوں تو کیا لکھوں؟